از: مولانا احمد سجاد قاسمی
پورہ
نوڈیہا، دربھنگہ
ہر
سمت اداسی چھائی ہے مغموم یہاں ہر پیر و جواں
ہر
دل میں غموں کا طوفاں ہے ہر چہرے سے ہے کرب عیاں
نمناک
بنی ہیں ہر آنکھیں ماحول میں ہر سو آہ
وفغاں
پژمردہ
ہیں سب گلہائے چمن اور دیدئہ نرگس اشک فشاں
اے
حلم ومروت کے خوگر اے مہر ومحبت کے پیکر
اے
رہروِ راہِ خلد بریں پھر ڈال دے شفقت سے تو نظر
وہ
خواب سلیماںؔ ندوی کے وہ عاشقِ حضرت گیلاؔنی
محبوبِ
حبیبؔ رحماں تھے شاگردِ رشیدِ نعمانیؔ
وہ
دیدہٴ
طیبؔ مدنیؔ کے دلدائہ منتؔ رحمانی
اسلاف
کے تھے وہ عکس حسیں اور ان سے تھا رشتہ روحانی
وہ
فقہ وفتاویٰ علم نبی کا نیّر تاباں ڈوب گیا
سرتاپا
جو درس قرآں تھا وہ مہرِ درخشاں ڈوب گیا
وہ
نرم مزاج وشیریں زباں وہ جود وسخا کا نقشِ حسیں
تھی
ذوقِ عبادت سے ہر دم مہتاب سی روشن ان کی جبیں
تھے
آپ تصنّع سے عاری اور ان میں تکلف کچھ بھی نہیں
وہ
سہل نگار وسہل بیاں، وہ سہل پسندی کے تھے امیں
اخلاقِ
جلیلہ کا حامل تربت میں ابھی خوابیدہ ہے
تھا
لمبا سفر، اب منزل پر آسودہ ہے آرامیدہ ہے
’’ترتیب
فتاویٰ‘‘ علم فقہ کی دنیا میں شہکار بنی
تو
’’اسوہٴ حسنہ‘‘ عشقِ نبی کے جذبے کا اظہار بنی
پھر
’’عفت وعصمت‘‘ کی شہرت سے دنیا لالہ زار بنی
اور
ایک ’’نظام امن‘‘ تری لوگوں کے گلے کا ہار بنی
’’تاریخ
مساجد‘‘ بھی لکھی اور اس کے نظامِ اعلا کو
اور
’’درسِ قرآں‘‘ کی خوشبو سرشار کرے گی دنیا کو
تخریج
مسائل میں یکتا تحقیق کے فن میں تو اعلیٰ
تحریر
تمہاری اہل قلم کے واسطے روشن مینارا
سب
تجھ سے محبت کرتے ہیں تو سب کی آنکھوں کا تارا
جو
کام ادارے کرتے ہیں وہ تنہا تونے کرڈالا
اب
قادرِ مطلق کی جانب سے جنت میں اکرام ملے
ہر
حرف کے بدلے میں تجھ کو اعزاز ملے ، انعام ملے
سب
آپ کے مرشد اور بڑے ہیں آج یقینا خلد نشیں
استاذ
جو دل کی دھڑکن تھے وہ سب کے سب ہیں زیر زمیں
غمخوار
میاںؔ صاحب تیرے ہمدرد عتیقؔ مفتیٔ دیں
احباب
میں ازہرؔ شاہ ہوں یا علامہ بہاریؔ کوئی نہیں
یوں
دنیا میں جو آئے ہیں سب جانے کو ہی آئے ہیں
پھر
ہوک سی دل میں کیوں اٹھی کیوں ہر سو غم کے سائے ہیں
جب
دارالافتا کی مجلس میں چائے کی پیالی آئے گی
کچھ
چشم حزیں اس محفل میں کچھ اور ہی شے چھلکائے گی
اور
ہنستے کھلتے چہروں پر یکلخت اداسی چھائے گی
اک
آہ بھی نکلے گی دل سے اور عرش تلک وہ جائے گی
سب
لوگ عبیدِ رحماؔں سے تب دل کا حال سنائیں گے
اور
غم کو ہلکا کر کرکے بادیدہٴ نم اٹھ جائیں گے
٭ ٭ ٭
------------------------------------
دارالعلوم ، شماره 6، جلد: 95 رجب 1432ہجری مطابق جون 2011 ء